Iran President Raisi in Saudi Arabia for Gaza

ایرانی صدر سید ابراہیم رئیسی کی 11سال بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض آمد.

اسلامی سربراہی کانفرنس اور عرب لیگ کے ریاض میں ہونے والے اجلاس میں ترک صدر رجب طیب اردگان نے تنظٰیم کے شرکا کو یاددلایا کہ اسرائیل کے پاس درجنوں سے سیکڑوں اٹیمی ہتھیاروں کے ذخائر بھی موجود ہیں جنہیں اسرائیل نے کبھی سرکاری طو ر پر تسلیم نہیں کیا اور ایک ایٹمی ابہام کی پالیسی برقرار رکھی ہوئی ہے ۔ غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے پس منظر میں ہونے والے اس ہنگامی اجلاس کا انعقاد سعودی ولی عہد نے محمد بن سلمان نے کیا تھا اور اس موقع پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی موجود تھے ۔ یہ کسی بھی ایرانی صدر کا 11 برس کے بعد دورہ سعودی عرب تھا۔ ان کے علاوہ علاقائی معاملات پر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے اختلاف رکھنے والے عرب ممالک شام کے صدر بشاور الاسد اور قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی بھی شریک ہوئے۔ اجلاس میں شامی صدر نے بالخصوص ’ اسرائیل سے تعلقات نارمل ‘ کرنے کی پالیسی پر زبردست تنقید کی۔ قبل ازیں حماس نے غزہ سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں مطالبہ کیا تھاکہ اسرائیل سے تعلقات منقطع کریں، تاہم او آئی سی اسرائیل کے خلاف کسی سخت تادیبی کارروائی پر یکسو نہ ہوسکی۔سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ الجزائر اور لبنان سمیت کچھ ممالک نے اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو تیل کی سپلائی میں خلل ڈالنے کے ساتھ ساتھ عرب لیگ کے بعض ممالک کے اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی دھمکی دے کر غزہ میں ہونے والی تباہی کا جواب دینے کی تجویز پیش کی۔ تاہم وائر رپورٹس کے مطابق کم از کم تین ممالک بحرین، مراکش،متحدہ عرب امارات، (جو 2020 میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لائے تھے) نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔فلسطینی گروپ اسلامی جہاد کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل محمد الہندی نے بیروت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کانفرنس 35 دن (جنگ) کے بعد منعقد ہوگی، اس کے نتائج کی جانب اشارہ ہے-
اسرائیل اور اس کے اہم حمایتی امریکہ نے اب تک جنگ بندی کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ حماس کو فتح دینا ہوگا۔ ہفتہ کو اس پوزیشن پر شدید تنقید ہوئی۔ ہفتے کے روز شرکاء کی فہرست میں قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی اور شام کے صدر بشار اسد بھی شامل تھے۔ یہ تنازعہ پہلے ہی اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان سرحد پار سے تبادلوں کو ہوا دے چکا ہے اور حوثیوں نے ’’بیلسٹک میزائلوں‘‘ کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ عرب اور مسلم رہنماؤں نے غزہ میں اسرائیلی افواج کے ’’وحشیانہ‘‘ اقدامات کی مذمت کی لیکن حماس کے خلاف اس کی جنگ پر ملک کے خلاف تعزیری اقتصادی اور سیاسی اقدامات کی منظوری دینے سے انکار کر دیا۔ اس سے قبل غزہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں حماس نے سربراہی اجلاس کے شرکاء سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی سفیروں کو ملک بدر کریں، ’’اسرائیلی جنگی مجرموں‘‘ پر مقدمہ چلانے کے لیے ایک قانونی کمیشن بنائیں اور علاقے کے لیے تعمیر نو کا فنڈ قائم کریں۔ قاہرہ سینٹر فار اسٹریٹجک اسٹڈیز میں مشرق وسطیٰ کے امور کی ماہر ربھا سیف عالم نے کہا کہ اتفاق رائے کا فقدان کوئی بڑے تعجب کی بات نہیں۔ عالم نے کہا کہ واشنگٹن کے عرب اتحادیوں اور ایران کے قریب ممالک کے درمیان اختلافات کو ’’راتوں رات ختم نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ ایک اور رپورٹ میں بتایا گیا کہ متحدہ عرب امارات اپنے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے اسرائیلی مہم پر کچھ اعتدال پسند اثر و رسوخ کی امید رکھتا ہے۔ ابوظہبی 2020 میں امریکہ کی ثالثی میں ابراہم معاہدے کے تحت 30 سالوں میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے والا سب سے نمایاں عرب ملک بن گیا۔ اس نے دیگر عرب ریاستوں کے لیے فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر تعلقات کو معمول پر لانے کی ممانعت کو توڑ کر اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات استوار کرنے کی راہ ہموار کی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں