غم کی سولی پہ کھڑے رہتے ہیں
خواب آنکھوں میں پڑے رہتے ہیں
لاکھ ہم ان کو گرا لیں پھر بھی
جو بڑے ہیں وہ بڑے رہتے ہیں
زندگی تیز ہے آندھی کی طرح
ہم شجر ہیں سو کھڑے رہتے ہیں
آج کل خواب بھی میرے مرشد
ایک دوجے سے لڑے رہتے ہیں
جس قدر ان کو مناوں پھر بھی
ضد وہ اپنی پہ اڑے رہتے ہیں
تیری ہر پل ہی جدائی کے اب
تیر سینے میں گڑے رہتے ہیں
امجد خان تجوانہ